نیند میں کھویا ہوا تھا ایک شہر
روشنی میں خواب سے باہر کھلا
روشنی میں خواب سے باہر کھلا
دھوپ تھی اور دن کا لمبا دشت تھا
رات کو باغ ِ مہ و اختر کھلا
اب تلک بے جسم تھا میرا وجود
یہ تو اس کے جسم کو چھو کر کھلا
اک جزیرے سے ہوا لائی پیام
بادباں لہرا گئے، لنگر کھلا
ڈوبنے سے ایک لمحہ پیشتر
ساحل ِسر سبز کا منظر کھلا
ایک قسمت، شمع، پروانے کی ہے
راز یہ اس شعلے کی زد پر کھلا
وہ محبت تھی ردائے مفلسی
پاؤں کو ڈھانپا تو میرا سر کھلا
پھر ستارہ وار اس کو دیکھنا
طائر ِ بستہ کا جونہی پر کھلا
آخر ِ شب تک مسافر کے لیے
ہم نے رکھا دل کا اک اک در کھلا
زندگی فانوس و گلداں ہو گئی
اس طرح اک دن وہ شیشہ گر کھلا
No comments:
Post a Comment