MyUrduStuff

Sunday, January 30, 2011

قائد اعظم کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات

ایک حیرت انگیز انکشاف جو قابل غور بھی ہے
ڈاکٹر صفدر محمود

آج میں آپ کو ایک نہایت دلچسپ بات بتانے والا ہوں جسے کچھ لوگ قدرت کی رمزیں، کچھ لوگ حسن اتفاق اور کچھ حضرات محض تاریخی حادثات قرار دیں گے لیکن ہماری تاریخ کا یہ پہلو فکرانگیز، منفرد اور قابل غور ہے اس لئے میرے ساتھ رہئے گا اور میں جو کچھ کہنے والا ہوں اس پر غور کیجئے گا۔
آپ جانتے ہیں کہ پاکستان چودہ اور پندرہ اگست 1947ء کی درمیانی شب رات بارہ بجے معرض وجود میں آیا تھا اور بارہ بجتے ہی آل انڈیا ریڈیو لاہور، پشاور نے یہ ”ریڈیو پاکستان ہے “ کا اعلان کرکے پاکستان کے طول وعرض میں جشن آزادی کا سماں پیدا کر دیا تھا جس کا ایک ایک لمحہ جوش و جذبے اور بے انتہا مسرتوں سے لبریز تھا ۔چنانچہ ہمارا پہلا یوم پاکستان پندرہ اگست 1947ء کو منایا گیا جو جمعتہ الوداع تھا اور جس رات پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا وہ رمضان المبارک کی ستائیسویں یعنی شب قدر تھی ۔ یہ رمزیں صرف ان لوگوں کے لئے معنی خیزہیں جو انہیں سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ورنہ عام لوگوں کے لئے پاکستان کے موجودہ تناظر میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے شعلوں میں گرفتار ہو کر ایسی بات کرنا محض اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے جو لوگ قدرت کے ان اشاروں کو اہمیت دیتے ہیں انہیں بہرحال یقین ہے کہ پاکستان قیامت تک قائم و دائم رہے گا اور یہ کہ ہم نے بحیثیت قوم ان اشاروں کے تقاضے پورے نہیں کئے لہٰذا موجودہ ابتلاء سے نکلنے کا راستہ توبہ و استغفار میں ہے۔ میں تو ایک ”دنیا دار “ انسان ہوں اس لئے میں قدرت کے بھید کیا سمجھوں اور کیا جانوں؟
بات دور نکل گئی میں یہ عرض کر رہا تھا کہ چونکہ پاکستان 14اور 15/ اگست کی نصف شب قائم ہوا تھا چنانچہ ہمارے پاس یہ چوائس تھی کہ ہم 14یا 15/اگست میں سے کسی ایک دن کو یوم آزادی قرار دے دیں۔ ہندو جوتشیوں نے ہندوستان کیلئے پندرہ اگست کا دن مبارک یا ”شبد“ جانا چنانچہ حکومت ہند نے اسی دن کو اپنا یوم آزادی قرار دے دیا جبکہ پاکستان نے 14/اگست کو اپنا یوم آزادی ڈکلیئر کر دیا۔
قائد اعظم کی دو ہی محبتیں تھیں پہلی محبت رتی ڈنکشا تھی اور دوسری محبت جو منزل بن گئی وہ پاکستان تھی۔ قائد اعظم نے رتی ڈنکشا سے نکاح کرنے سے قبل اسے مولانا شاہ احمد نورانی کے تایا مولانا نذیر صدیقی امام جامع مسجد بمبئی کے ہاتھ پر شرف بہ اسلام کیا اور پھر اس سے شادی کی۔ ان کے بطن سے ان کی اکلوتی اولاد دینا پیدا ہوئی اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دینا جناح بھی 14اور 15/اگست کی درمیانی شب 1919ء کو پیدا ہوئی اور پاکستان بھی 14اور 15/اگست کی درمیانی شب پیدا ہوا۔ دینا نے بھی 15اگست 1919ء کے دن پہلی بار سورج کی کرنیں دیکھیں اور یہ جمعہ کا دن تھا جبکہ پاکستان نے بھی پندرہ اگست 1947ء کو پہلی بار آزادی کا اجالا دیکھا اور یہ بھی جمعہ کا دن تھا۔
ایک اور حیرت انگیز اور قابل غور پہلو پر غور کیجئے کہ بعض اوقات تاریخی حقائق کے پس پردہ قدرت اپنا ہاتھ دکھاتی اور ہمیں کچھ سمجھاتی ہے لیکن ہم آسانی سے سمجھنے والے نہیں ۔بہرحال آپ ذرا غور کریں اور تھوڑی سی تحقیق کریں تو آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے مثلاً یہ کہ قائد اعظم کا انتقال 11ستمبر 1948ء کو ہوا ۔ 1948ء سے لیکر آج تک پاکستان کا یوم آزادی ، قائد اعظم کا یوم ولادت 25دسمبر اور قائد اعظم کا یوم وفات 11ستمبر ایک ہی دن ہوتا ہے اسکی وضاحت کے لئے آپ کو موجودہ سال 2010ء کی مثال دیتا ہوں۔ پاکستان کا یوم آزادی 14/اگست بروز ہفتہ ہو گا، قائد اعظم کا یوم وفات 11ستمبر ہفتہ کا دن ہو گا اور اسی طرح قائد اعظم کا یوم پیدائش 25دسمبر بھی ہفتہ کے دن منایا جائے گا۔ آپ کی سہولت کے لئے اور بات سمجھانے کے لئے گزشتہ چند برسوں کا چارٹ پیش خدمت ہے جس سے یہ نقطہ واضح ہو جائے گا ۔ آپ چاہیں تو جنتری سامنے رکھ کر 1948ء سے لیکر 2010ء تک کا نقشہ تیار کر لیں تو آپ پر راز کھلے گا کہ قائد اعظم اور پاکستان ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تھے اور ہر سال قائد اعظم کا یوم پیدائش، یوم وفات اور یوم پاکستان مختلف مہینے ہونے کے باوجود ایک ہی دن ہوتا ہے ۔اگر قدرت قائد اعظم کا یوم وفات بارہ ستمبر 1948طے کر دیتی تو یہ نقشہ نہ بن سکتا اور وہ یوم مختلف ہو جاتا ۔ میں نے صرف اپنی بات کی وضاحت کے لئے چند برسوں کا نقشہ بنایا ہے جو درج ذیل ہے۔
مجھے پاکستانیات کا یہ پہلو نہایت دلچسپ اور حیرت انگیز لگا چنانچہ میں نے اسے آپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ میرے مطالعے کے مطابق آپ کو عالمی تاریخ میں اس طرح کی مثالیں شاید ہی ملیں۔ بہرحال آپ اسے محض حسن اتفاق کہیں یا تاریخ کا حادثہ سمجھیں یا اس کے پس پردہ قدرت کی رمزیں تلاش کریں۔
یہ آپکی مرضی …!!

No comments:

Post a Comment