MyUrduStuff

Thursday, February 10, 2011

...Manzilain buland hun to ...Mushklain bhi ati hain

Is trha nai krte
Rabta to rakhty hain
Thora milny julny ka
Silsila to rakhty hain
...Manzilain buland hun to
...Mushklain bhi ati hain
Mushkilon se lrne ka
hosla to rakhty hain
Jo tumhare apne hun
Tum se pyar krte hun
Unka haal kaisa hai
Kuch pata to rakhte hain
Dosti k rishty ko
Torty nai aesy
Rothey doston se bhi
Wasta to rakhtey hain
Chor jane wale akser
Lot kr bhi aaty hain
Lot kr wo aany ka
RAsta to rakhty hain

Tuesday, February 8, 2011

ہم خود فریبی میں زندگی بتاتے ہیں

خوشیوں کی تلاش میں
بے حساب رنج و غم
اپنے دل پہ سہتے ہیں
...جان تک گنواتے ہیں
نم آنکھوں سے ہنستے ہیں
...اور خود سے کہتے ہیں
رنج عارضی ہیں یہ
خود فریبی ہے
سُن
اصل میں یوں ہوتا ہے
مختصر سی مدت میں
خوشیاں بیت جاتی ہیں
ہم خود فریبی میں
زندگی بتاتے ہیں
ایک چراغ بجھتا ہے
دوسرا جلاتے ہیں
دشتِ آس و یاس میں
ننگے پاؤں چلتے ہیں
خوشیوں کی تلاش میں

غم سمیٹ لیتے ہیں

Saturday, February 5, 2011

اِک عمر سے اس شب میں گرفتار ہوں مَیں بھی

اِک عمر سے اس شب میں گرفتار ہوں مَیں بھی
اِس ظلم سے اَب بَر سرِ پیکار ہوں مَیں بھی
بچوں کو آسانیاں بہم کرنے کی خاطر
دُشوار منازل کا، طلبگار ہوں مَیں بھی
...
گھر میرا رکاوٹ تھا، جلا ڈالا ھے اس کو
ہر بار مَیں ڈرتا تھا کہ گھر دار ہوں مَیں بھی
کب تک اِنہی ٹکڑوں پہ گذر اپنی رھے گی
مَیں بے سَروساماں سہی، خود دار ہوں مَیں بھی

لفظ جب معتبر نہیں رہتے زندگی کے ہنر نہیں رہتے

لفظ جب معتبر نہیں رہتے
زندگی کے ہنر نہیں رہتے

جب قلم کا بھی مول پڑجائے
...پھر اُمیدوں کے گھر نہیں رہتے

تب غریبوں کی فکر کرتے ہیں
جب امیرِ شہر نہیں رہتے

تلخیاں لہجے اوڑھ لیتی ہیں
جب نظر میں ابر نہیں رہتے

جب یقینِ جمہور اُٹھتا ھے
کتنے شانوں پہ سر نہیں رہتے

چلو کہ اپنی صبح کو جگا کے آتے ہیں

اندھیری رات ٹھکانے لگا کے آتے ہیں
چلو کہ اپنی صبح کو جگا کے آتے ہیں
سبھی جو مان رھے ہیں، بہت اندھیرا ھے
چراغ جوڑ کے سورج بنا کے آتے ہیں
...ہجومِ شہر پہ سکتہ کہ پہل کون کرے
صلیبِ شہر کو آؤ سجا کے آتے ہیں
یہ رات روز جو ہم سے خراج مانگے ھے
ہزار سر کا چڑھاوا، چڑھا کے آتے ہیں
نہیں ھے کچھ بھی بچا اب، بجز یہ زنجیریں
اُٹھو یہ مال و متاع بھی، لٹا کے آتے ہیں

خاموش بیاں محسوس کرو

خاموش بیاں محسوس کرو
اِک شور پنہاں محسوس کرو
عشرت کے اُفق کے پار ذرا
ھے زیست گراں محسوس کرو
...جمہور کے سینے میں پلتے
حسرت طوفان محسوس کرو
پوشاک بھرم کے پردے میں
فاقوں کے جہاں محسوس کرو
عینک یہ سبز اُتارو تو
یہ راکھ جہاں محسوس کرو
محرومی لاوے میں پک کر
سرکش ہوں جواں محسوس کرو

فاصلے قومِ غلاماں کے سَر نہیں ہوتے

فاصلے قومِ غلاماں کے سَر نہیں ہوتے
ادھار پاؤں کے بل پہ سفر نہیں ہوتے
حدِ اڑانِ اسیران، بھی مقرر ھے
قفس میں پلتے پرندوں کے پَر نہیں ہوتے
...بضد بنانے پہ مسکن ہیں، غیر ڈھانچے پر
دیواریں ہوتی ہیں جن میں تو دَر نہیں ہوتے
تنے کا واسطہ، لازم بھی ھے زمینوں سے
بغیر جڑ کے شجر، باثمر نہیں ہوتے

اک رات اندھیری ھے

اک رات اندھیری ھے
اور وقت کی آندھی ھے
طغیانی کے عالم میں
اک ریت گھر وندہ ھے
...امید کا دیپک ھے
پروانے سا جذبہ ھے
اک میں ہوں، خدا بھی ھے
اک غیبی صدا بھی ھے
اک روز صبح ہو گی
اک روز صبح ہو گی

کس میں جنوں کی منزلیں پانے کا حوصلہ؟

کس میں جنوں کی منزلیں پانے کا حوصلہ؟
نیزے پہ سر کو اپنے سجانے کا حوصلہ
ہواﺅں میں شعلے سرکش بنانے کا ہو ہنر
خوں سے بجھے چراغ جلانے کا حوصلہ
...ظلمت کی رُت میں ساتھ ہمارے وہی چلیں
جن میں ہو گھر کو آگ لگانے کا حوصلہ
صبح تلک تو قافلے بن جائیں گے مگر
کس میں ھے سوئی صبح جگانے کا حوصلہ؟
فرخ جو حالات کا شکوہ کریں فقط
اُن میں نہیں مقدر بنانے کا حوصلہ

یہ بھی تو بچے ہیں

کبھی تو فرصت کے موسموں میں
کسی بڑے شہر کی نکڑ پہ
کچی بستی کے سہ...مے سہمے
ننھے بچوں کے چہرے پڑھنا
کہ جن کے ننگے بدن نجانے
کتنی ہی خنک رتوں کو
لباس کر کے پہن چکے ہیں
معصوم سے ہاتھ، پھول چہرے
کھلونے روٹی کے مانگتے ہیں

زرد موسم نجانے کتنی
بہاریں اُن کی نگل چکے ہیں
کئی تو ہیں جو کہ پیدا ہوتے ہی
بچپنے سے نکل چکے ہیں
اُن کی آنکھوں میں دیکھو اک بار
حسرتیں برف بن گئی ہیں
اُن کے حصے کی خوشیاں تھیں جو
کبھی یہ سوچا، کدھر گئی ہیں؟

اِک رات ھے ابدی سی، یا یہ عہدِ سزا ھے صبح نہیں کرتا ھے، یہ سورج ھے یاکیا ھے

اِک رات ھے ابدی سی، یا یہ عہدِ سزا ھے
صبح نہیں کرتا ھے، یہ سورج ھے یاکیا ھے

گرہن زدہ سورج ھے، دے روشنی چند کو
...اِک سایہ زدہ دن میں کھڑی، خلقِ خدا ھے

اِس فرش کے باسی کا بھی حق، روشنی پہ ھے
دیپک نے ہی خود لَو تلے، اندھیرا کیا ھے

اِس خوابوں کی جنت میں، یہ کیا ہم پہ بنی ھے
اک عمر سے تکتے ہیں کہ محشر سا بپا ھے

کس کس کو خدا مانیں، خداؤں کے نگر میں
ہم نے تو سنا تھا کہ فقط ایک خدا ھے

یہ سانسوں کے رشتے بھی نبھائے نہیں جاتے اب ناز یہ لاشے کے اُٹھائے نہیں جاتے

یہ سانسوں کے رشتے بھی نبھائے نہیں جاتے
اب ناز یہ لاشے کے اُٹھائے نہیں جاتے

کچھ لوگ زمانے میں، موزوں ہی نہیں ہوتے
...اندازِ جہاں اُن کو سکھائے نہیں جاتے

زَردار ہی آدابِ حکومت سے ہیں واقف
عوام سے سردار اُٹھائے نہیں جاتے

کرِدار تو حالات کے گرداب سے اُبھریں
مٹی سے تو افکار بنائے نہیں جاتے

لفظوں سے مرے کرب کی آتش کو چھُوﺅ ناں
دل کھول کے وائے کہ دکھائے نہیں جاتے

اک تو شوقِ سفر بھی رکھتے ہو اور نگاہوں میں گھر بھی رکھتے ہو

اک تو شوقِ سفر بھی رکھتے ہو
اور نگاہوں میں گھر بھی رکھتے ہو

چھوڑ ساحل کو بھی نہیں سکتے
منزلوں پہ نظر بھ...ی رکھتے ہو

مصلحت ظلم سے بھی جاری ھے
جوشِ خونِ جگر بھی رکھتے ہو

تم بغاوت کا حوصلہ تو کرو
جان جاو گے، پَر بھی رکھتے ہو

موت کا وقت جب مقرر ھے
پھر زمانے کا ڈر بھی رکھتے ہو

دل میں باطل سے کُڑھتے رہتے ہو
احترامِ نظر بھی رکھتے ہو

میرِ ملت، انا کا خوں کر کے
اپنے شانوں پہ سر بھی رکھتے ہو

بن کے سردارِ قوم بیٹھے ہو
لب پہ بوندِ عذر بھی رکھتے ہو

تم نے شب کو بھی تھام رکھا ھے
اور امید سحر بھی رکھتے ہو

آؤ کہ ہم غریب لیں، قسمت کو ہات میں

آؤ کہ ہم غریب لیں، قسمت کو ہات میں
گَر من میں ٹھان لیں، تو ھے سب ممکنات میں

آؤ کہ کوئی خواب بُنیں، کل کے واسطے
...سوچوں کے مقتلوں کو، دفن کر کے رات میں

بَن کے اُجالا پھاڑ دیں، تاریک رات کو
جگنو اگر یہ جان لیں، کیا ھے بساط میں

سوچیں کہ ہم سے کیوں ھے گریزاں، اُمیدِ صبح
اُلجھے امیرِ قافلہ، بس اپنی ذات میں

اس بوسیدہ نظام کو بدلو خاص ہو تو عوام کو بدلو

اس بوسیدہ نظام کو بدلو
خاص ہو تو عوام کو بدلو

بن کے سورج جو دوڑیں ہیں دن بھر
...اِن کی سونی سی شام کو بدلو

وقت پابوس ہوگئے خامے
جنگجو سارے، نیام کو بدلو

اے پیادو، بساطِ جیون پہ
اپنے اپنے مقام کو بدلو

عاجزی، بزدلی سمجھ بیٹھے
اپنے تکیہ کلام کو بدلو

جب عقیدے میں شک سماجائے
ھے ضروری امام کو بدلو

لب اگر سلے بھی ہوں، جاری یہ بیاں رکھنا

اس گھٹن کے عالم میں، حق نہیں نہاں رکھنا
لب اگر سلے بھی ہوں، جاری یہ بیاں رکھنا

تم فقط ہی لفظوں کے، بت ...نہیں کھڑے کرنا
ایک سچ ہنر کرنا، حرف حرف جاں رکھنا

ہم کو تو نہیں آتے، طور بزم شاہی کے
جرم ہوگیا دیکھو، منہ میں اب زباں رکھنا

عزم کے چراغوں کو خوں سے زندگی دینا
اور ہر ایک منزل پہ، راہ کا گماں رکھنا

تم جنون ساحل پہ، کشتیاں جلادینا
واپسی کی اُمیدیں ، نہ کوئی نشاں رکھنا

زہر کے پیالے کا، گھونٹ گھونٹ پی لینا
آگ میں اُتر جانا، سر کو آسماں رکھنا

طارقؓ کی طرح کشتی، جلانے ہوں میں نکلا

سیاہی زما نے کی، مٹانے ہوں میں نکلا
طارقؓ کی طرح کشتی، جلانے ہوں میں نکلا

میں برف کا پیکر بھی ہوں، اور... آنچ سا جذبہ
سورج سے زمانے کو، بچانے ہوں میں نکلا

دشمن ہوں ہوائیں بھی، سہی ریت کی ضد بھی
صحرا میں سے اک رستہ، بنانے ہوں میں نکلا

اِس راتِ مسلسل کی، ظلمت کے نویں پہر
سوئی ہوئی صبحوں کو، جگانے ہوں میں نکلا

میں بھانپ کے نیت، محافظ کی سرِشب ہی
دھوئیں سے قبل آگ، بجھانے ہوں میں نکلا

شاعر نے ِمرے سپنا، جو قائد کو دکھایا
اُس خواب جزیرے کو، بسانے ہوں میں نکلا

جس نے ھے جنا مجھ کو، ہوں جس گود میں کھیلا
مٹی کا ھے کچھ قرض، چُکانے ہوں میں نکلا

بغاوت پہ آمادہ، مغلوب ہیں ہم لوگ

جہنم میں جینے کا اسلوب ہیں ہم لوگ
بغاوت پہ آمادہ، مغلوب ہیں ہم لوگ

دَر دَر ہی بھٹکتے پھرے، منزل پہ نہ پہنچے
...بے نام سے بے قسمت، مکتوب ہیں ہم لوگ

ہر دَور میں شاہی فرامین سے باغی
ہر جبر کے زنداں میں مطلوب ہیں ہم لوگ

خواص کی محفل میں ہیں، شیخی کا سبب ہم
عوام کی دھڑکن سے، منسوب ہیں ہم لوگ

سمجھانے چلے ہم کو، لو آدابِ زمانہ
مدہوشِ تغیر ہیں، مجذوب ہیں ہم لوگ

ھے اک دل کا کھلونا دھڑکے تو تماشہ جو بنا دیتا اُس کو

اک مرد کے سائے میں پلی
سہمی سی لڑکی
جو رائے تو رکھتی ھے
...ظاہر نہیں کرتی
وہ سوچ تو سکتی ھے
مگر سوچ کی حد تک
وہ سانسیں بھی لیتی ھے
تو ڈرتی ھے کھنک سے
نازک سی پہیلی میں
ھے اک دل کا کھلونا
دھڑکے تو تماشہ جو بنا دیتا اُس کو

سچے دل سے تو کبھی ہاتھ اُٹھا کر دیکھو

چین مخزن کے دریچے پہ تو جا کر دیکھو
خود کو فطرت کے اصولوں پہ تو لا کر دیکھو

کچھ طمانت کی خبر تم کو بھی... ہو جائے گی
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسا کر دیکھو

اکڑے پھرتے ہو، ہر اک لحظ شکایت صورت
نقب دامن میں کبھی اپنے لگا کر دیکھو

غرضِ ہستی میں تو بے چینی مقدر ہو گی
درد سینے میں کوئی غیر سجا کر دیکھو

طاقتِ غیب کا اندازہ جو کرنا چاہو
سچے دل سے تو کبھی ہاتھ اُٹھا کر دیکھو

مسافر مانگیں، جادہ دے اندھیروں کو لبادہ دے

مسافر مانگیں، جادہ دے
اندھیروں کو لبادہ دے

غریب آرزو ہیں جو
...انہیں اتنا زیادہ دے

ہمیں جانا بہت آگے
ذھن تھوڑے کشادہ دے

اُلٹنا تختِ ظلمت ھے
مصمم سا اِرادہ دے

جو اپنا ہمقدم بھی ہو
کوئی رہبر پیادہ دے

رات آخر تو سو ہی جائے گی صبح اک دن تو ہو ہی جائے گی

آخر ہم کب تلک غریب رہیں؟
------------------------------
آس دامن میں باندھ کر خواہش
جس سفر پہ بزرگ تھے ن...کلے
عمر تک رات کا سفر کاٹا
پھر بھی لیکن صبح نہیں آئی
آؤ سب مل کر ہمسفر سارے
خوابِ غفلت سے جاگ کر سوچیں
میر جعفر کو، میر صادق کو
مسندِ میر کِس نے دے چھوڑی؟

اپنے قائد کے قاتلوں پیچھے
آخر ہم کب تلک نماز پڑھیں؟
ڈھونگیوں کی دعاوں پہ کب تک
ہم فقط" آمین" کا یہ ورد کریں
یہ تو ناو ڈبو کے چھوڑیں گے
آؤ خود ہی سامانِ زیست کریں

تکیہ کب تک مہا جنوں پہ کریں
آخر ہم کب تلک غریب رہیں؟
کب تلک آنسووں کو بو کے ہم
فصلِ امید میں خوشی دیکھیں
آؤ اِس کارواں کا رخ موڑیں
ڈھونڈ لائیں کہیں سے صبح کو
ایسی ہی باغیانہ سوچوں سے
خوشبوئے اِنقلاب آتی ھے

کیوں روایت کو تھام کر بیٹھیں؟
فصلِ خواہش کے انتظار میں ہم
چل کے منزل کبھی نہیں آتی
خوش گمانی سے جھاڑ کر دامن
منزلوں کو سفر بھی لازم ھے
مل کے جب سب چلیں گے جگنو تو
راہ روشن بھی ہو ہی جائے گی
رات آخر تو سو ہی جائے گی
صبح اک دن تو ہو ہی جائے گی

کوئی تو ہو ناں۔۔۔

کوئی تو ہو ناں۔۔۔
__________
کوئی تو بولے
کہ ہم کو اپنی سماعتوں پہ
یقین اَب کے نہیں رہا ھے
...غنیم بازیگروں نے ایسے
ھے جھوٹ کا یاں رواج ڈالا
کہ سچ بھی ڈر کے سہم گیا ھے

کوئی تواُٹھے
کہ سچ کی حُرمت کی پاسبانی کا علم لے کر
خاموش شہروں کو پھر جگائے
کہ آس دیپک کی لَو کو اپنے حصار میں لے
غریب آنکھوں میں صبحِ نَو کی چمک سی جاگے
کہ ہم نے مدت سے ایسا منظر نہیں ھے دیکھا

کوئی تو آئے
کہ شہرِ ظلمت میں جگنو ؤں کا رواج ڈالے
کہ روشنی کو یقیں دلائے
جنوں کی فصلیں نئی اُگائے
یاں گُل رُتوں کو زوال نہ ہو
کہ زندگی یوں وبال نہ ہو

کوئی توجانے
کہ کچی بستی میں رہنے والے
شروع سے اب تک غریب کیوں ہیں؟
کہ اِن کے کھاتے منیم جی نے
غریبی آخر نصیب کیوں کی؟
کہ اِن کی سوچوں کی حد مقرر
یہ روٹیوں کی صلیب کیوں کی؟

کوئی تو سوچے
کہ ٹھنڈے چولھے میں خوں کا ایندھن
جلانے والوں کے خشک آنسو
اُجاڑ سوچوں بھری نگاہیں
دُعا میں اُٹھتے، لرزتے ہاتھوں
یقیں سے خالی لبوں کی پپڑی
سوال تھامے جمی رھے گی؟

مَیں نسلوں کی گواہی ہوں

مَیں نسلوں کی گواہی ہوں
کہ جن کی را ئے کو تم نے
یہاں بوٹوں سے ...روندا ھے
کہ جن کو حقِ گوےائی
دیا سنگینوں کے سائے
کہ جن کو سچ مسخ کر تم
نصابوں میں پڑھاتے ہو

مَیں نسلوں کی گواہی ہوں
جہاں جمہور کو تم لوگ
فقط حشرات گنتے ہو
جہاں قانون مکڑی کے
فقط جالے کی مانند ھے
جو ہم جےسے نحیفوں کو
جکڑ لےتا ھے بے وجہ
اور جِسے تم چِیر کر ہر روز
یونہی آذاد پھرتے ہو

مَیں نسلوں کی گواہی ہوں
جہاں میں سوچ سکتا ہوں
مگر بس سوچ کی حد تک
وگرنہ سوچنے کے کچھ
یہاں آداب ہوتے ہیں
مگر مَیں بے ادب سا ہوں
ہمیشہ بِن اِرادے کے
حدوں کو توڑ دیتا ہوں
مَیں بیزارِ ہدایت ہوں
شروع سے بے روایت ہوں

مَیں نسلوں کی گواہی ہوں
جہاں پر بے ضمیروں کا
لگا بازار دیکھا ھے
جہاں بہتاتِ رسد کے باوصف
کبھی مندا نہیں ہوتا
جہاں ریاست کے کل پُرزے
بکاؤ مال ہیں سارے
یہاں کردار کا مخزن بھی بے کردار دیکھا ھے
اور مسیحائی کے پردے میں بھی کاروبار دیکھا ھے

یہاں جھوٹ اور ڈِھٹائی کا
رواج ایسے پڑا دیکھا
کہ سچ خود کے گریباں میں
شرم سے تار دیکھا ھے
یہاں پر باضمیروں کو
سدا لاچار ھے پایا
مگر موقع شناسوں کو
بَنا اوتار دیکھا ھے

مَیں نسلوں کی گواہی ہوں
جہاںہر شاہ کے دَر پہ
کئیے مُنصف نے سجدے ہیں
جنازے آس کے ہم نے
یہاں اکثر اُٹھائے ہیں
مگر اُمید کے مُردار
کِسی عیسٰیؑ کے طالب ہیں
جو اِن میں زندگی پھُونکے
اور اِن کو بَس یقیں دے دے

ہر ایک اپنی فکر میں، ہجومِ بے سمت

ہر ایک اپنی فکر میں، ہجومِ بے سمت
امیرِ شہر کو لاحق، خویش کی بہبود
کوئی بھی میر ملا نہ ، جو کارواں بنتا
تمام کھوج سے فرخ، یہی ہوا مشہود

خدا سے گفتگو


\/\/\/\/\/\/\/\/
رَب سے مِلنا ہوا تو بولوں گا
بھید والے سے بھید کھولوں گا
...ایسی دنیا بنا کے آخر کیوں
بے سلیقہ کو تخت دے چھوڑے
کون ہو جو مہار کو موڑے
آکے دنیا میں دیکھ تو خالق
تیرے نائب فرعون نکلے ہیں
تیرے نائب فرعون نکلے ہیں

ہم اپنے چولھے میں، خود کو ایندھن، بنا کے کب سے جلا رھے ہیں

ہم اپنے چولھے میں، خود کو ایندھن، بنا کے کب سے جلا رھے ہیں
غریب ننگ...ے یہ بھوکے اِک دن، تمہاری ہنڈیا بھی پھوڑ دیں گے
کتابیں لے کے مری نسل سے، نشہ و اسلحہ تھما رھے ہو
تم اِرتقا کے ہزار زینے بھی پار کر کے وہیں کھڑے ہو
بموں کے تحفے نے اِس زمیں کو، سِوا زہر کچھ نہیں دیا ھے
لہکتے کھیتوں کو تم نے آخر، ویرانیوں میں بدل دیا ھے
ہمارے آٹے کے ٹین میں اَب، فقط ہی کیڑے براجماں ہیں
اُٹھو کے اَب کے نہیں بچا کچھ کہ جس کے کھونے کا ڈر رہا ہو

لہو کی بھٹی، جنوں کے جبڑے، جواں نسل کو نِگل رھے ہیں
جمودِ شب ظلمتوں کے سائے بھی تھک کے آخر پگھل رھے ہیں
مِرے وطن کے خزانے تم نے، بارود ڈھیروں میں گُم کیئے ہیں
ہمیں نہ جنگ سے ڈرا کے اَب کے، مزید روٹی پہ حق جتاؤ
ہماری نسلوں نے پیٹ کاٹا، تو تُم کو آیا غرور کرنا
تمہارے بُوٹوں نے روند ڈالی ھے آج خستہ اَنا ہماری
گر آج دیکھو حساب مانگیں، یہ بھوکے تو تُم خفا تو ہو گے
تُم آخر اِتنی ہو شان والے، عوام کتنے "حقیر" دیکھو

مِرے مقدر غریبی لکھ دی، مجھے شُکر کا سبق پڑھایا
ہاں کھوج سچ کی زہر پیالے میں ڈُوب کر ہی سدا ملی ھے
ہمارے بچو سکول جاؤ تو خود بھگت کا ظہور پاؤ
وگرنہ اِن کے نصاب تم کو، گھڑا گھڑایا شعور دیں گے
تم "اِن کی اپنی تریخ" پڑھ کے، قصیدہ گوئی نہ پیشہ کرنا
وگرنہ قسمت پہ پہرہ دیتی، بیچاری سوچوں کی حَد مقرر
شعور کے بَس ہیں قید خانے، یہ درس گاہیں تمہاری دیکھو
ہماری نسلوں کے پَر ہیں کاٹے، ہمیں فقط رینگنا سکھایا

ہم بھوک کی فصلیں بوئیںگے؟


آذاد ہُوا تھا دیس مگر
ہم آج تلک آذاد نہیں
یاں چور لٹیرے قابض ہیں
اور خلقِ خُدا کا راج ...نہیں
اَب نصف صدی کے پار کھڑے
اِک سوچ میں ہیں، یاں اہلِ وطن
نسلوں کی اِس فرمانبرداری میں
کیا کھویا اور کیا پایا ھے؟

طبقات میں بانٹ کے رکھا ھے
جیون کو، علم و دولت کو
لفظوں کے گورکھ دھندے میں
خوشحالی کے بہلاوے ہیں
غُربت کی با تیں فیشن ہیں
اِن اُمرا کے درباروں میں
محروم کھڑی ھے خلقِ خُدا
یاں دولت کے انباروں میں

فرقوں میں بانٹ کے خوش ہیں بہت
مذہب کے ٹھیکیدار ہمیں
جو دین محبت کا لے کر
نفرت کی دکانیں کرتے ہیں
’سورج‘ ظلمت کی بستی کے
مالک وہ سوچ کی پستی کے
"وہ جن کے سوا سب کافر ہیں
جو دین کا حرفِ آخر ہیں"

غیروں کی جنگوں میں ہم نے
نسلوں کا ایندھن ڈالا ھے
وہ ہاتھ گرےباں تک آئے
اِک عمر سے جن کو پالا ھے
اب امن سے ہم کو رہنے دو
اب اور نہ لاشے ڈھوئیںگے
بارود کے ڈھیروں میں کب تک
ہم بھوک کی فصلیں بوئیںگے؟

اُٹھو یہ مال و متاع بھی، لٹا کے آتے ہیں

اندھیری رات ٹھکانے لگا کے آتے ہیں
چلو کہ اپنی صبح کو جگا کے آتے ہیں
سبھی جو مان رھے ہیں، بہت اندھیرا ھے
چراغ جوڑ کے سورج بنا کے آتے ہیں
ہجومِ شہر پہ سکتہ کہ پہل کون کرے
صلیبِ شہر کو آؤ سجا کے آتے ہیں
یہ رات روز جو ہم سے خراج مانگے ھے
ہزار سر کا چڑھاوا، چڑھا کے آتے ہیں
نہیں ھے کچھ بھی بچا اب، بجز یہ زنجیریں
اُٹھو یہ مال و متاع بھی، لٹا کے آتے ہیں

Friday, February 4, 2011

اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے

اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

اے دل کی خلش چل یونہی سہی چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اُس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے

اے رہبرِ کامل چلنے کا تیار ہوں میں پر یاد رہے
اُس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے

ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مُشکل آ جائے

اب کیوں ڈھونڈوں گا چشمِ کرم ہونے دے سِتم بالائے ستم
میں چاہوں تو اے جذبہ غم مشکل پسِ مشکل آ جائے