یہ سانسوں کے رشتے بھی نبھائے نہیں جاتے
اب ناز یہ لاشے کے اُٹھائے نہیں جاتے
کچھ لوگ زمانے میں، موزوں ہی نہیں ہوتے
...اندازِ جہاں اُن کو سکھائے نہیں جاتے
زَردار ہی آدابِ حکومت سے ہیں واقف
عوام سے سردار اُٹھائے نہیں جاتے
کرِدار تو حالات کے گرداب سے اُبھریں
مٹی سے تو افکار بنائے نہیں جاتے
لفظوں سے مرے کرب کی آتش کو چھُوﺅ ناں
دل کھول کے وائے کہ دکھائے نہیں جاتے
No comments:
Post a Comment